ہومیوپیتھی کی پوٹنسی دوا میں موجود مالیکیولز کو الیکٹرون مائکروسکوپ سے بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔اس لیے ہومیوپیتھی کو نہ جاننے والے ہومیوپیتھک پوٹنسی دوا کے افعال واثرات کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔یہی وجہ ہے ابھی تک ماڈرن میڈیکل سائنس نے ہومیوپیتھی کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ جبکہ دیگر طریقہ علاج میں مستعمل ادویات کے مالیکیولز کو آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے، اور ان کے افعال واثرات معلوم کیے جا سکتے ہیں۔
ہومیوپیتھک طریقہ علاج میں
مریض کو صرف وہی دوا دی جاتی ہے جو کہ اس کی تمام علامات کے مماثل ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس دوا کا مریض کے زبان پر لگتے ہی شفابخش اثر شروع ہو جاتا ہے۔ جب کہ دیگر طریقہ ہائے علاج میں ایسا ممکن ہی نہیں۔ چونکہ انکی مستعمل ادویات کی پروونگ نہیں کی ہوتی، اس لیے ان کا پتہ ہی نہیں چلایا جاسکتا کہ وہ مریض کی علامات کے مماثل ہیں یا متضاد۔ مریض کی تکلیف دہ علامات کو مسکن، مخدر یا منوم ادویات سے کنٹرول کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ مریض کو یہ ادویات تمام عمر،کھانا ہوتی ہیں۔
ہومیوپیتھک طریقہ علاج سائنٹیفک نہیں ہے۔اگر یہ سائینٹیفک ہوتا تو سائینس اسے کب کی تسلیم کر چکی ہوتی۔
سائنس صرف اسی چیز کو مانتی ہے جو مشاہداتی قواعد و ضوابط میں ہو۔ اسکے مطابق
کلاسیکل فزکس ہی مادہ اور توانائی کے طریقہ عمل کو درست طور پر بیان کرسکتی ہے۔
جب کہ ہومیو پیتھک پوٹینسی دوا کے غیر مرئی ہونے کی بنا پر نہ تو اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، اور نہ ہی اسے کلاسیکل فزکس کے قواعد میں بند کیا جا سکتا ہے۔
تاہم ہومیوپیتھک پوٹینسی دوا کے استعمال کرنے پر اس کے افعال واثرات کے شواہد جسم انسانی میں واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ نیز
ہر دوا کی پروونگ کرنے پر، کسی فرد کے جسم و ذہن پر جو کیفیات، احساسات اور افعال و اثرات مرتب ہوتے ہیں،انہیں شواہد و تجربات کے بعد قواعد و ضوابط میں محفوظ کرلیا گیا ہے۔
یعنی جو، دوا میں اس کے اثرات کی علامات، موجود ہیں، بعینہ وہی علامات اگر مریض میں ہونگی تو وہ دوا مریض کو دی جائے گی اور موثر بھی وہی ثابت ہوگی۔
دیگر کسی طریقہ علاج میں یہ طریقہ کار نہیں اپنایا جاتا۔یہی وجہ ہے کہ ان طریقہ علاج میں جو مرکبات استعمال کیے جاتے ہیں ان کے افعال و اثرات، مریض کی علامات سے نہ تو پوری طرح مماثل ہوتے ہیں اور نہ ہی ہر علامت پر بالضد ،
اگر ایسا ہےتو، اسے کیسے پرکھا جا سکتا ہے؟
لیکن یہ تب ہی ممکن ہے؟ اگر مرکب ادویات کی بھی باقاعدہ پروونگ کی جائے،اور ان کے افعال و اثرات کو کسی فرد کے جسم و ذہن پر ہونے والے افعال واثرات کے تناظر میں دیکھا جائے۔
ہومیوپیتھک پوٹنسی دوا میں دنیائے طب کی ہر دوا سے لطیف ترین مالیکیولز یا ذرات ہوتے ہیں۔جنہیں دیکھنے کے لئے ابھی تک کوئی آلہ ایجاد نہیں ہو سکا۔
کوانٹم تھیوری کو اگر آپ نے پڑھا ہے تو یہ تو آپ جانتے ہی ہونگے۔ کسی چیز کی کم ترین مقدار کو کوانٹم کہا جاتا ہے۔
اسکی مثال فوٹان ہے جو روشنی کا کم ترین ذرہ ہے۔
کوانٹم ایک خاص مقدار کو کہتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ" چونکہ انرجی یا توانائی ایک خاص مقدار میں پائی جاتی ہے۔ اس لئے اس کو کوانٹم کہا جاتا ہے۔روشنی کے لئے اس کی ایکویشن ہے"
کوانٹم ذرات کو اگر کسی ذریعے سے معلوم کیا جا سکتا ہے، لیکن ہومیوپیتھک پوٹنسی دوا میں موجود ذرات کو ابھی تک دیکھا جانا ممکن نہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پوٹنسی میں دوا کا کوئی وجود نہیں ہوتا، حالانکہ اس میں اثرات موجود ہوتے ہیں اور موجود کیلئے وجود شرط ہے۔
سائنسی دلچسپی اور مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ، چیزوں پر کوانٹم لیول کے منطبق ہونے والے قوانین ، کلاسیکل سے بالکل مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر،جب ہم کسی چیز ہر بندوق کی گولی وغیرہ سے نشانہ لگاتے ہیں تو وہ مطلوبہ جگہ پر جا لگتی ہے۔
ہم گولی چلانے والی مشین کی طاقت اور گولی چلنے کی رفتار سے اس کے ماضی حال اور مستقبل کو بھی جان سکتے ہیں ،کہ یہ کب کس مقام سے چلی،اور کس وقت کس مقام اور پوزیشن میں تھی،اور کتنے وقت میں مقررہ نشانہ پر جا لگے گی۔
لیکن کوانٹم لیول کے ذرات پر، یہ قوانین و قواعد لاگو نہیں ہوتے۔
ہائی سن برگ، شروڈنگر،بوہر نیل،اور پال ڈیراک وغیرہ جیسے عظیم سائنسدان بھی اپنی سخت محنت اور تحقیقات کے بعد، حیرت سے پکار اٹھے کہ کوانٹم ذرات میں کارفرما قوانین، دکھائی دینے والی اشیاء میں قوانین سے یکسر مختلف ہیں۔
کوانٹم ذرات کا کچھ پتا نہیں چلتا کہ وہ کب کس رفتار سے اور کس سمت میں جائیں گے۔
یہاں آئنسٹائن یا نیوٹن کا دریافت کیا ہوا قانون بھی غیر موثر ہے۔
البتہ ہائی سن برگ نے،تحقیقات کے بعد یہ انکشاف کیا کہ کوانٹم لیول پر موجود ذرات یا الیکٹران کی حرکات، سمت یا رفتار کو کیلکولیٹ نہیں کیا جاسکتا۔ کوانٹم ذرے کا ایک ہی وقت میں اسکے موجود ہونے کی جگہ اور سمت کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔صرف خیال یا امکان ہی ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ جو کہ غلط بھی ہوسکتا ہے۔
ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ اسباب کی دنیا ہے، کوئی چیز واقعہ یا حادثہ بے سبب نہیں۔
لیکن کوانٹم کی دنیا میں اس چیز کا اطلاق نہیں سمجھا جاتا۔کیوں کہ جب بھی کوئی الیکٹران کسی آلے کی مدد سے ٹارگٹ کی طرف پھینکا جاتا ہے، تو یہ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ٹارگٹ کی طرف ہی جائے گا۔فوٹان بھی بغیر کسی سبب کے اچھلتے رہتے ہیں۔
آئنسٹائن کے نظریے کی رو سے "کسی بھی چیز کی رفتار روشنی سے تیز نہیں " لیکن
نیل بوہر کا کہنا ہے کہ "سفر اور رفتار کوئی مسئلہ نہیں"
ہومیوپیتھک تھیوری، کوانٹم تھیوری سے بھی زیادہ حیران کن ہے۔البتہ اس میں کوانٹم تھیوری کی طرح ابہام یا اختلاف نہیں ہے،کیوں کہ اسے قواعد و ضوابط میں سمیٹ لیا گیا ہے،اور اس سے متعلق قوانین دریافت کرلیے گئے ہیں۔
ہومیوپیتھک پوٹنسی دوا میں موجود غیر مرئی ذرات کی تیز رفتاری کا یہ عالم ہے کہ وہ روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے چشمِ زدن میں بالمثل ٹارگٹ تک پہنچ جاتی ہے۔اس معاملے میں ہومیوپیتھی، آئن سٹائن کے بجائے، نیل بوہر کے نظریے کے زیادہ قریب ہے۔
ہومیوپیتھی کا تقابل کسی دوسرے طریقہ علاج سے درست نہیں ہے، یہ انہیں سینکڑوں سال پیچھے چھوڑ کر آگے نکل گئی ہے۔
ماڈرن میڈیکل سائنس اگر ہومیوپیتھی کو سمجھ لے تو کوانٹم تھیوری، کوانٹم میکینکس، اور نیل بوہر کے نظریے کوانٹم انٹینگل منٹ کو بھی زیادہ بہتر طریقے سے سمجھا جاسکتا ہے ۔ اور دنیا بہتر طریقےسے اس سے استفادہ کر سکے گی۔
Comments
Post a Comment