ہومیوپیتھی کے ذریعے خواتین کی صحت کے مسائل کا حل: ایک ہمہ گیر نقطہ نظر
سورا یعنی نفس برے خیالات جیسا سوچو گے ویسے بن جاو گے۔
اگر نسل انسانی میں سورا کا وجود نہ ہوتا تو دنیا میں کوئی بیماری نہ ہوتی۔
سورا کے وجود سے دنیا میں مختلف بیماریوں کی نمود ہے۔ ہائنمین نے اس کو سمجھنے میں 12 سال تک مسلسل جدوجہد کی۔ سورا متواتر ہر انسان کے اندر موجود رہتا ہے۔ اور قوت مدافعت میں ذرہ سی کمی آ جائے تو سر اٹھاتا ہے یا دوسری بیماریوں کے لئے اثر پیدا کر دیتا ہے۔
سورا اپنا کام اندر ہی اندر کیا کرتا ہے اور اس قدر ترقی پذیر ہو جاتا ہے کہ انسانی جسم پر مزمن بیماریاں اور متعدی بیماریاں لاتعداد امراض کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔
ڈاکٹر کینٹ نے "سورا" کی تاریخ دی کہ جب پہلے انسان پیدا ہوئے تو گناہ سے بالکل مبرا تھے اور آرام سے زندگی بسر کرتے تھے۔ مگر جوں جوں ان کی نسل بڑھتی گئی کچھ ایسے بھی تھے جو خدا تعالیٰ کے احکام کے منکر ہوئے۔
سورا کے عام لفظ سے بعض محققین نے خارش کھجلی جو کہ سورا کی ایک شکل ہے، کا جو مطلب اخذ کیا ہے، انہوں نے اپنا پیچھا چھوڑانے کے لیے "خارش" لکھ دیا۔ مگر اس میں بھی شک نہیں کہ ان کے اس بیان میں ایک حد تک سچائی ضرور ہے۔
سورا کس بلا کا نام ہے۔
ہر ایک بیماری غیر مادی ہوا کرتی ہے اور غیر مادی انسان سے شروع ہو کر جسم کی طرف آتی ہے بیماری کے شروع ہو جانے پر احساسات میں تبدیلیاں ہو جاتی ہیں اور ان احساسات کا سر چشمہ نفس ہے۔
اس لئے بیماریاں نفس سے شروع ہوتی ہیں یا یہ کہ لیں ابتداء نفس ہی ماؤف ہوتا ہے۔
انسان کے نفس میں پہلے خیال پیدا ہوتا ہے بعد میں یہی خیال ارادہ کی شکل اختیار کرتا ہے اور ارادہ سے افعال سر زد ہوتے ہیں۔ انسان برے خیالات نہ سوچے تو برے کام نہ کر سکے اسی لیے گناہ نہ کرے۔
🔸جیسے سوچو گے ویسے ہی بن جاوگے۔
چونکہ برے خیالات اور ان سے پیدا شدہ برے افعال غیر قدرتی ہوتے ہیں اس لیے برے خیالات کا اجتماع نفس کے لیے ہمیشہ ضرر رساں ہوتا ہے۔ اور یہ اجتماع نفس کے لیے مخالف قوت کے طور پر ہوا کرتا ہے, اور چونکہ مخالف قوت نفس کے لیے بیماری ہے۔
اس لئے برے خیالات کا پیدا ہونا ہی بیماری ہے۔
والدین کے خیالات کا اثر بچوں پر ہوتا ہے اس لئے والدین کی بیماری بچوں میں عود کر آتی ہے۔ چونکہ برے خیالات کا نام زندگی کی مخالف قوت یا بیماری ہے۔ اس لیے " سورا" سوائے برے خیالات کے کچھ نہیں۔
👈برے خیالات اور احساسات کا نام ہی سورا ہے
اگر انسان سورا سے یا بیماری کے تاثر سے بچنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اپنے باطنی حالت درست کر کے اپنے خیالات کو درست کرنا چاہیے اور قانون قدرت کے موافق اپنی زندگیاں سادہ بنا کر گزارنا چاھیے۔
♦️ہر مرض کی جڑ سورا۔ یہ نسل در نسل بھی منتقل ھوتی ہے اور انسان خود بھی پیدا کرنے کا زریعہ بنتا ہے
مطلب۔ اصل مطلب بری سوچ برا خیال
سورا یعنی بری سوچ برا خیال کیسے نقصان کرتی ہے۔
جس طرح کسی گھر میں بجلی کی وائرنگ ھوتی اور اس میں کسی بھی جگہ کسی بھی وجہ سے دو تاریں آپس میں ملنے پر سپارکنگ کر کے کچھ نہ کچھ ضرور نقصان کریں گی اور سپارگنگ سے آگے درست کرنٹ نہی جاتا اسی طرح سورا سے لگی آگ بغیر بجھائے کبھی نہی بجھے گی اور ہمیشہ سلگتی ہی رہے گی اور اور آخر کار ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے کر جلا کر راکھ کر دے گی۔ سورا نہ ہو تو سفلس اور سائیکوسس پیدا ھوہی نہی سکتے۔
شیطان ہی سورا اور سورا کا باعث ہے۔
سورا کی اقسام 2۔ حاد اور مزمن۔
سورا کی اصل علامت خارش۔
سورا کا علاج اول۔ سلفر۔
✌️شفاء ہمیشہ الٹے طریقہ سے شروع ہوا کرتی ہے یعنی شفاء اندر سے باہر کو آتی ہے یا اوپر سے نیچے کو ہوا کرتی ہے یا مرکز سے محیط کی طرف علامات آتی ہیں۔
کوئی بھی دوا جو علامات کے مطابق ٹھیک ٹھیک مریض کو دی جاتی ہے اس کا اثر ہمیشہ اندر سے باہر کی طرف یعنی باطن سے جسم کی طرف ہوا کرتا ہے, چونکہ نظام انسانی کا بیرونی حصہ " جلد " ہے اس لیے ہر مرض عام طور پر آخر میں " خارش کھجلی" کی شکل اختیار کر کے ختم ہوا کرتا ھے۔
🔹جب ادویات اندر سے باہر کی طرف اثر کرتی ہوئی بیماری کو جسم کے کثیف ترین حصہ ( جلد ) پر لا کر پھینک دیتی ہیں تو بعض محققین نے اس خارش کھجلی ہی کو " سورا " کے نام سے پکارا ہے حالانکہ خارش بھی سورا کی ایک شکل ہے۔
👈ڈاکٹر کینٹ کے مطابق بھی سورا خارش نہیں ہے بلکہ گناہ ہی سورا ہے۔ چونکہ گناہ مادی ہوا کرتے ہیں اس لیے میرے نزدیک گناہ سورا نہیں بلکہ گناہوں کا سر چشمہ برے خیالات ہی کا نام " سورا" ھے۔
😳درحقیقت ہمارے دین اسلام نے جس چیز کو شیطان کہا ہے وہی ( سورا ) ہے۔
Comments
Post a Comment